حافظ شیرازی کی ایک خوبصورت عرفانی غزل:
==========================
التماس ، اگر آپ مندرجہ ذیل نظم کا سرائیکی ، بلوچی ، سندھی ، پشتو ، براھوی ، انگلش یا کسی بھی زبان میں ترجمہ کرنا چاہیں تو کمنٹ سیکشن میں ترجمہ لکھ دیں ہم اس ترجمہ کو اپکی زبان اور نام کے ساتھ اسی نظم میں اضافہ کر دیں گے شکریہ ۔
هزار دشمنم ار میکنند قصدِ هلاک
گرم تو دوستی، از دشمنان ندارم باک
(چاہے ہزاروں دشمن مجھے ہلاک کرنے کا قصد کریں، اگر تم میرے دوست ہو تو مجھے دشمنوں کی پروا نہیں ہے۔)
مرا امیدِ وصالِ تو زنده میدارد
وگرنه هر دمم از هجرِ توست بیمِ هلاک
(اے معشوق، مجھے فقط تیرے وصل کی امید زندہ رکھتی ہے۔۔۔ ورنہ ہر لحظہ مجھے تیری دوری سے ہلاکت اور نابودی کا خوف ہے۔)
نفس نفس اگر از باد نشنوم بویش
زمان زمان چو گل از غم کنم گریبان چاک
(اگر میں ہر سانس میں ہوا سے معشوق کی خوشبو نہ سونگھوں، تو ہر وقت غم کی وجہ سے پھول کی طرح اپنا گریبان چاک کرتا رہوں۔)
رود به خواب دو چشم از خیالِ تو؟ هیهات!
بوَد صبور، دل اندر فراقِ تو؟ حاشاک!
(تیرے خیال کو چھوڑ کر میری دونوں آنکھیں سو جائیں؟ کبھی نہیں۔۔۔۔ تیرے فراق میں دل کو صبر آ جائے؟ کبھی نہیں۔۔۔۔)
اگر تو زخم زنی، به که دیگری مرهم
وگر تو زهر دهی، به که دیگری تریاک
(اگر تو زخمی کرے تو یہ دوسرے کے مرہم لگانے سے بہتر ہے۔۔۔ اگر تو زہر دے تو یہ دوسرے کے تریاق سے بہتر ہے۔)
بِضَربِ سَیفِکَ قَتلِی حَیاتُنا اَبَداً
لِاَنَّ رُوحِیَ قَد طابَ اَنْ یَکونَ فِداک
(تیری شمشیر سے میرا قتل میرے لیے حیاتِ ابدی ہے۔ بے شک، میری روح اس میں خوش ہے کہ تجھ پر قربان ہو جائے۔)
عنان مپیچ که گر میزنی به شمشیرم
سپر کنم سر و دستت ندارم از فتراک
(اے معشوق، اپنی باگ موڑ کر مجھ سے دور مت ہو، کیونکہ اگر تو مجھے تلوار سے بھی مارے گا تب بھی میں اپنے سر کو سپر بناؤں گا اور تیرے فتراک سے ہاتھ نہ ہٹاؤں گا۔)
تو را چنان که تویی، هر نظر کجا بیند؟
به قدرِ دانش خود هر کسی کند ادراک
(تو جیسا ہے اس طرح تجھے ہر نظر کہاں دیکھ سکتی ہے؟ ہر شخص اپنی سمجھ کے بقدر ہی ادراک کرتا ہے۔)
به چشمِ خَلق عزیزِ جهان شود حافظ
که بر درِ تو نهد رویِ مسکنت بر خاک
(مخلوق کی نگاہ میں حافظ اس وقت با عزّت ہو گا جب تیرے در پر عاجزی سے اپنا چہرہ دھر دے گا۔)
[حافظ شیرازی]