واری ایہ پوسٹ پڑھی ڳئی ہے ۔
88
راسخ العقیدہ مسلمان ہوں لیکن “اسلام ازم” کی کسی تحریک سے وابستہ نہیں ہوں۔
محنت کشوں کے حقوق اور سوشل جسٹس کا پکا حامی ہوں لیکن “سوشل ازم” کا قائل کبھی نہیں ہوسکا۔
اپنے وطن، خاندان، مادری زبان اور ثقافت سے محبت ہے لیکن “نیشنل ازم” سے شدید بیزاری۔
شخصی لبرٹی کا حق سب کے لیے دل و جان سے تسلیم کرتا ہوں لیکن “لبرل ازم” کے پرچم اٹھائے نہیں پھرتا۔
خواتین کے مساوی حقوق اور ایمپارمنٹ کا وکیل ہوں لیکن “فیمنزم “کا ٹیگ لگائے نہیں پھر سکتا۔
ہم میں سے اکثر لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں کیونکہ ہم مکمل اور متوازن انسان بننا چاہتے ہیں ۔۔
۔۔ کسری شخصیت کے حامل اور کسی ایک جانب حد سے زیادہ جھکے ہوئے لوگ نہیں۔ ہم اپنی سیاست کی بنیاد سیدھے سادے یونیورسل انسانی اصولوں کو بنانا چاہتے ہیں، انسانوں کو بانٹنے والے نظریات اور شناختوں کو نہیں۔ لیکن یہ تحت الشعوری کومن سینس صرف ہم عام لوگوں میں ہی ہوتی ہے۔ فکری اشرافیہ ہمیشہ اس کومن سینس سے محروم ہی پائی گئی ہے۔
– احمد الیاس